Essay on teacher اُستاد پر مضمون

 (۱) استاد کی اہمیت



          کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اس کے استاد کی تربیت کارفرما ہوتی ہے۔ اساتذہ انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی زندگی استاد کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے ماں کے بغیر گھر۔ ایک نوخیز بچے سے لے کر عمر کی آخری سانس تک انسان کا ہر عمل اس کی حاصل کردہ تعلیم و تربیت کا عکس ہوتی ہے جسے وہ اپنے اساتذہ سے حاصل کرتا ہے۔ استاد، وہ پھول ہے جس کی خوش بو سے بچے کی زندگی مہک اٹھتی ہے، وہ چراغ ہے جس کی روشنی میں بچہ زندگی کی تاریکیوں میں حوصلے کی راہ پاتا ہے، استاد وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے بچہ کامیابی کی بلندی پر چڑھتا ہے، گویا استاد کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔


          خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں زندگی میں بہترین اساتذہ میسر آتے ہیں۔ والدین بچے کو زندگی دیتے ہیں مگر اساتذہ بچے کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، ایک نوخیز بچے سے لے کر کامیاب انسان تک کا سفر استاد کی کارکردگیوں کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔

      اچھے اساتذہ معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ جن سے بہترین قومیں وجود میں آتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انسانی تاریخ اساتذہ کے احترام و تکریم کی سنہری داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا بادشاہ، کیا شہنشاہ کیا ولی، کیا صحابہ کرام  سبھی نے اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی بہترین مثالیں رقم کیں۔


         خلیفہ ہارون الرشید کے دو صاجزادے جب تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن اپنے استادکے جانے کے وقت دونوں شہزادے جوتے لینے دوڑ پڑے یہاں تک کہ دونوں میں تکرار ہونے لگی۔ طئے یہ ہوا کہ دونوں استاد محترم کے ایک ایک جوتے پیش کریں گے۔ خلیفہ نے جب یہ بات سنی تو محترم استاد کو دربار میں طلب کیا اور پوچھا بتائیے کہ اس وقت سب سے زیادہ قابلِ تعظیم کون ہے؟ استاد  نے محتاط انداز میں جواب دیا کہ سب سے زیادہ قابلِ تعظیم تو خلیفہ وقت ہیں۔ ہارون الرشید نے مسکرا کر جواب دیا اس وقت سب سے زیادہ قابلِ تعظیم وہ ہے جس کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے خلیفہ وقت کے شہزادے تکرار کرتے ہیں۔ 


          قارئین!  تمام دنیا کا جائزہ لے لیجے وہ ہارون الرشید کے شہزادے ہوں یا مولانا رومی، وہ ارسطو ہو یا بادشاہ اورنگزیب، سب کی زندگی پر اساتذہ کی تعظیم کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔

          امریکہ کے سولھویں صدر ابراہم لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو خط لکھا جس میں اس نے اپنے بیٹے کے استاد سے چند گذارشات کیں۔ وہ لکھتا ہے " مجھے معلوم ہے کہ میرے بیٹے کو یہ سیکھنا اور جاننا پڑے گا کہ تمام لوگ اچھے اور ایمان دار نہیں ہوتے۔ مگر استاد محترم اسے یہ ضرور سکھائیے گا کہ جہاں کم ظرف لوگ ہوتے ہیں وہاں ہیرو بھی ہوتے ہیں۔ ہر خود غرض سیاستدان کے ساتھ ایک ایک دیانت دار راہ نما بھی ہوتا ہے، اسے سکھائیے کہ دشمنوں کی بھیڑ میں کہیں دوست بھی چھپا ہوگا، میرے بیٹے کو حسد سے روک لینا اسے خاموش مسکراہٹ اور قہقہوں کے راز سے واقف کرانا۔ اسے بتائیے گا کہ جھگڑا اور تشدد سے گھبرائے نہیں۔ اسے کتابوں کے حیران کن رازوں سے واقف کرائیے گا، اسے آسمانوں پر تیرتے پرندوں اور آفاقی رازوں سے آگاہ کیجئے گا، اسے سوچنے کے لیے وقت مہیا کیجئے گا، اسے سکھائیے گا کہ امتحان گاہ میں نقل کرکے کامیاب ہونے سے کہیں زیادہ اچھا ہے ناکام ہوجانا۔ اسے سبق دیجئے گا کہ اپنے خیالات پر مکمل بھروسہ رکھے چاہے ایک جم غفیر اس پر تنقید کررہا ہو۔ اسے زیادہ لاڈ پیار نہ دیجیے گا۔ اسے اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھنے والا بنائیے گا۔۔۔۔۔" ابراہم لنکن کا یہ تاریخی خط اپنے آپ میں ایک مثال پیش کرتا ہے۔ یہ خط اس بات کو واضح کرتا ہے کہ استاد کی تربیت بچے کی تمام زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ ابراہم لنکن جو خود ایک عظیم ملک کے صدر تھے، جنھوں نے امریکہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔ وہ لیڈر، وہ قاعد، وہ راہ نما بطور باپ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اس کے استاد کی جانب رجوع کرتا ہے۔


          بلا شبہ کہ استاد کی تعظیم ہم پر فرض ہے اور کیوں نہ ہو، استاد ہی کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے، اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے۔ استاد ہی کی محنت سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور ستاروں کی دنیا پر کمندیں ڈالتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کے بغیر انسان اس نابینا شخص کی مانند ہے جو بغیر سہارے سفر پر نکلا ہو 

          اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر


والسلام

از قلم 

 ⁦✍️⁩ ہماضی انصاری


(۲) اُستاد کی ایک بہترین صفت


          شادی کی تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس جاتے ھیں اور پوچھتے ھیں۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"


          انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"

          شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح اسکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"


        استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"

        شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔

        آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"


        استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔"

        کیا ھم ایسے استاد بن سکتے ھیں جو اپنے اعمال سے بچوں کو استاد بننے کی ترغیب دے سکیں نہ کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بچوں کو پوری کلاس کے سامنے شرمندہ کریں۔

⁦✍️⁩ منقول


(۳) اُستاد کا مقام


            اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حثییت اہمیت اور مقام مسلم ہے۔ کہ استاد ہی نو نہالان قو م کی تعلیم وتربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ استاد ہی قوم کے نوجوان کو علوم و فنون سے آراستہ پیراستہ کرتا اور اس قابل بناتا ہے۔ کہ وہ ملک اور قوم کی گرانبارذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں ۔ استاد جہاں نوجوانوں کی اخلاقی وروحانی تربیت کرتا ہے۔ وہاں وہ ان کی مختلف علمی سائنسی فنی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کا سامان کرتا ہے۔ والدین بچے کی جسمانی پرورش کرتے ہیں۔ جبکہ استاد کے ذمے بچے کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے استاد کی حثییت اور اہمیت والدین سے کس طرح سے کم نہیں بلکہ ایک لحاظ سے ان سے بڑھ کر ہے ۔ کیونکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل۔

            اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں رسول اکرمﷺ استاد اور صحابہ کرم آپ ﷺ کے شاگرد ہیں۔ صحابہ نے جو کچھ رسول اکرمﷺ سے حاصل کیا ۔ اۡسے تمام تر جدوجہد کے ساتھ دوسروں تک پہنچا دیا ۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

            ترجمہ۔پیغمبر تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور تمہیں وہ سب کچھ سیکھاتا ہے۔ جو تم نہیں جانتے تھے۔

            حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ،،جو شخص مجھے ایک لفظ سکھاتا ہے۔ وہ میرا استاد ہے۔ اور میں اُس کا احترام کرتا ہو۔پھر فرمایا :خدا کی اسِ تقسیم سے راضی ہیں ۔کہ اُس نے ہمیں علم دیا ۔اور جاہلوں کو دولت دی ۔ کیو نکہ دولت عنقریب فنا ہو جائے گی۔اور علم لازوال ہے۔

            جو لوگ بھی آج شہرت کی بلندیوں پر ہیں ان کو بھی دن رات کی محنت نے اس مقام پر پہنچایا ہے علامہ محمد اقبال ؒبنایا ۔محنت ہی کی بدولت محمد علی جناح قائد اعظم کہلائے ۔محنت کامیابی کی کنجی ہے۔چنانچہ  قائد اعظم نے طلباء کو کامیابی کا راستہ دکھاتے ہوئے محنت کی نصیت ان لفظوں میں کی تھی۔ کام۔کام اور کام قوموں کی ترقی کا دارومدار محنت پر ہے جس قوم کے لوگ محنتی ہوتے ہیں ایک دن وہ قوم مضبوط بن کر کاہل اور کمزور قوموں کو اپنا محتاج بنالیتی ہے۔جو لوگ استاد کا احترام نہیں کرتے وہ زندگی کے کسی موڑ پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ استاد تمہارے روحانی والدین ہے ۔اس کا احترام کرو گے تو زندگی میں کامیابی حاصل ہو گی۔نبی پاک حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے استاتذہ کو راضی کیا اس نےاللہ تعالیٰ کو راضی کیا جس بد بخت سے اس کے استاتذہ ناراض ہو گے اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گیا۔


            اسی لیے ہمیں چاہیے کے اُستاد کا احترام کریں۔اللہ ہم سبھی استاد کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

⁦✍️⁩ زبیر احمد فاز


Comments

  1. یہ کیسا مضمون ہے لیکها استاد کا احترام ہے اود دیا استاد کی اہمیت ہے . ایسا تو کوئی نہیں کرتا. مجھے یہ ہرکت پسند نہ ائ. م

    ReplyDelete
  2. رہتا ہے نام علم سے زندہ ہمیشہ داغ
    اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Teacher par sher اُستاد پر اشعار

Quotes on teacher اُستاد پر اقوال