Gazal غزل
(۱)
تم بھی اب شہر سے ڈر جاتے ہو حد کرتے ہو
دیکھ کر مجھ کو گزر جاتے ہو حد کرتے ہو
نین تو یوں ہی تمہارے ہیں بلا کے قاتل
اس پہ تم روز سنور جاتے ہو حد کرتے ہو
میری آنکھوں سے بھی آنسو نہیں گرنے پاتے
میری آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہو حد کرتے ہو
میرے جذبات میں تم بہہ تو لیا کرتے ہو
کیسے دریا ہو اتر جاتے ہو حد کرتے ہو
میں بھی ہر روز تری مان لیا کرتی ہوں
تم بھی ہر روز مکر جاتے ہو حد کرتے ہو
تیری خوشبو کو زمانے سے چھپاؤں کیسے
تم جو چپ چاپ بکھر جاتے ہو حد کرتے ہو
تم تو کہتے تھے رباب اب میں تری مانوں گا
پھربھی تم دیر سے گھر جاتے ہو حد کرتے ہو
✍️ نا معلوم
(۲)
جگر پر یہاں ۔۔۔۔ چوٹ سب کھارہے ہیں
ستم ڈھانے والے ۔۔۔۔ ستم ڈھا رہے ہیں
یہ رنجش عداوت کہاں تک سہوں میں
وہ اب دور مجھ سے بہت جا رہے ہیں
نہیں ہے مجھے ۔۔۔ ان سےاب کوئ مطلب.
یہی قلب مضطر کو سمجھا رہے ہیں
غریبی سے اتنا ۔۔۔۔۔۔۔ پریشان ہیں ہم.
بچی روٹیاں ۔۔۔۔۔ ہم سبھی کھارہے ہیں
ادھر میں محبت میں الجھا ہوا ہوں.
اُدھر چھت پہ آ ۔۔۔۔۔ کر وہ تڑپا رہے ہیں.
جنہیں میرے شعرو سخن سے تھی نفرت.
غزل اب ہماری ۔۔۔۔۔ وہ کیوں گا رہے ہیں
نہ کرنا کبھی ۔۔۔۔ پیار دنیا میں کاظم.
ہم اپنا تجربہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتلا رہے ہیں
✍️ محمد کاظم شیرازی
(۳)
حرفِ رنجش پہ کوئی بات بھی ہو سکتی ہے
عین مُمکن ہے، مُلاقات بھی ہو سکتی ہے
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے!
زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے
ہم نے یہ سوچ کے رکھّا ہے قدم گُلشن میں
لالہ و گُل میں تِری ذات بھی ہوسکتی ہے
چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول
بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
ایک تو چھت کے بِنا گھر ہے ہمارا مُحسؔن
اُس پہ یہ خوف ، کہ برسات بھی ہو سکتی ہے
✍️ محسن نقوی
Comments
Post a Comment