Speech on teacher اُستاد پر تقریر

 (۱) استاد کی عظمت



             اس بزم کے جلوہ افروز صدر !  اور میرے مہربان ساتھیو!… اسلام علیکم


            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے"، استاد کی عظمت بیان کرنے کے لیے کافی و شافی دلیل ہے۔ کہتے ہیں "نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا"، مگر یہ بات


            قابلِ غور ہے کہ نبی کا استاد نبی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو استاد تھے، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام۔ حضرت موسیؑ ٰ نے اپنے سسر اور اپنے استاد حضرت شعیب علیہ السلام کی آٹھ سال تک خدمت کی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔


             استاد کی عظمت نہ صرف ایک مستقل قدر ہے بلکہ کوئی بھی معاشرہ اسے تسلیم کیے بغیر علم و ترقی کا ایک قدم بھی طے نہیں کرسکتا۔استاد کی عظمت نہ صرف ایک مستقل قدر ہے بلکہ کوئی بھی معاشرہ اسے تسلیم کیے بغیر علم و ترقی کا ایک قدم بھی طے نہیں کرسکتا۔

            استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے۔


             اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموںنے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے۔ اور ان پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی ہیں۔ آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں۔


؎اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں

سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے


            حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔’’ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہواــ‘‘۔ یہ ہے مقامِ ادب اور اس سے ملتا ہے سچا نصیب۔ سچی دولت جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔


            تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:۔


            ’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔


یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:۔


            ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘


            یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ:۔


            ’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘


جنابِ والا!۔۔۔

            الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند اور بسیط ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔اور رسولِ اکرم کی حدیث پاک ہے کہ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے تاجر کا خطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے۔ آپ نے اپنے لیے پسند کیا تو معلم یعنی استاد کا رتبہ ۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں۔


(۲) استاد کا مقام


               حضور ﷺ نے فرمایا’’ کہ انسان کے تین باپ ہے‘‘ اور سب سے اچھا وہی ہے جس نے ہمیں علم سکھایا۔حضورﷺ کہ فرمان سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اپنے استاد کا ادب کرنا چاہیے ۔استاد کا درجہ باپ سے بھی زیادہ ہے اسلام میں علم حاصل کرنا ضروری ہے یہ ہر مسلمان پر فرض ہے،شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ جب استاد سے کچھ پوچھنا ہو تو بہت ادب سے پوچھو۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بہت بڑے صحابی تھے۔انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے علم حاصل کیا تھا۔حضرت عبداللہ اپنے استاد حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کا ادب کرتے تھے۔ایک دن حضرت زید اپنے گھر سے نکلے گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو حضرت عبداللہ نے دیکھ لیا اور بھاگ کر آئے اور گھوڑے کی رکاب تھام لیں اور بڑے ادب کے ساتھ استاد کے پاؤں اس میں رکھے،حضرت زید منع کرتے رہے لیکن حضرت عبداللہ نے فرمایا’’آپ میرے استاد ہیں میں یہ عزت ضرور کروں گا‘‘۔آپ سب علامہ اقبال کے نام سے واقف ہیں وہ اردو زبان کے بہت بڑے شاعر تھے ایک دفعہ انہوں نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی ایسا عالم نہیں جس سے میں نہ ملا ہوں،میں نے سب سے بلا جھجک بات کی لیکن اپنے استاد سے بات کرنے میں میری زبان بند ہو جاتی تھی،ان کے ادب کے باعث میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔

            استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔ ماں باپ اگر اس کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، تو استاد اسے اچھی اور باعزت زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ اسے علم کے زیور سے آراستہ کرکے اس کی اخلاقی تربیت کرتا ہے۔

✍️ زبیر احمد فاز

Comments

  1. Jazaakal laahu khairan kaseera

    ReplyDelete
  2. پریم چند کے ناقدین کی ادبی خدمات اس پر مواد درکار ہے کا جائزہ لیں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Essay on teacher اُستاد پر مضمون

Teacher par sher اُستاد پر اشعار

Quotes on teacher اُستاد پر اقوال