Urdu Zaban par Nazm اُردو زبان پر نظم
(۱) پیاری زبان اُردو
از قلم : م۔ش۔ نواز (بھیونڈی)
پیاری زبان اردو ، نیاری زبان اردو
سارےجہاں میں دیکھوپھیلی زبان اردو
خسروکی ہے پہیلی غالب کی ہے سہیلی
دکن کی ہے دلاری سب کی زبان اردو
ہندو ہو یا مسلماں عیسائی ہو کہ سکھ ہو
سب کے دلوں پہ یارو چھائی زبان اردو
لکھنوہو یاہو دلیّ مشرق ہو یاکہ مغرب
آبِ رواں کے جیسی جاری زبان اردو
رس میٹھااسکےفقرےکانوں میں گھولتےہیں
بچّے جوان بوڑھے سب کی زبان اردو
جن کو ہے انسیت وہ اردو ہی بولتے ہیں
دشمن بھی بولتے ہیں اچھی زبان اردو
ہوگا نواز اک دن اک انقلاب برپا
ہوگی زبان اردو سب کی زبان اردو
🥀م۔ش۔نواز🥀
____________________________
(۲) اُردو
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
میں میرؔ کی ہم راز ہوں غالبؔ کی سہیلی
دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا
سوداؔ کے قصیدوں نے مرا حسن بڑھایا
ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالیؔ نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبالؔ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومنؔ نے سجائی مرے خوابوں کی حویلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے
چکبستؔ کی الفت نے مرے خواب سنوارے
فانیؔ نے سجائے مری پلکوں پہ ستارے
اکبرؔ نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
✍️ اقبال اشہر
_____________________________
(۳) *اردو*
ہماری پیاری زبان اردو
ہماری نغموں کی جان اردو
حسین دل کش جوان اردو
زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے
اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے
جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے
اسی زباں میں ہمارے بچپن نے ماؤں سے لوریاں سنی ہیں
جوان ہو کر اسی زباں میں کہانیاں عشق نے کہی ہیں
اسی زباں کو چمکتے ہیروں سے علم کی جھولیاں بھری ہیں
اسی زباں سے وطن کے ہونٹوں نے نعرۂ انقلاب پایا
اسی سے انگریز حکمرانوں نے خود سری کا جواب پایا
اسی سے میری جواں تمنا نے شاعری کا رباب پایا
یہ اپنے نغمات پر اثر سے دلوں کو بیدار کر چکی ہے
یہ اپنے نعروں کی فوج سے دشمنوں پہ یلغار کر چکی ہے
ستم گروں کی ستم گری پر ہزارہا وار کر چکی ہے
کوئی بتاؤ وہ کون سا موڑ ہے جہاں ہم جھجک گئے ہیں
وہ کون سی رزم گاہ ہے جس میں اہل اردو دبک گئے ہیں
وہ ہم نہیں ہیں جو بڑھ کے میداں میں آئے ہوں اور ٹھٹھک گئے ہیں
یہ وہ زباں ہے کہ جس نے زنداں کی تیرگی میں دئیے جلائے
یہ وہ زباں ہے کہ جس کے شعلوں سے جل گئے پھانسیوں کے سائے
فراز دار و رسن سے بھی ہم نے سرفروشی کے گیت گائے
کہا ہے کس نے ہم اپنے پیارے وطن میں بھی بے وطن رہیں گے
زبان چھن جائے گی ہمارے دہن سے ہم بے سخن رہیں گے
ہم آج بھی کل کی طرح دل کے ستار پر نغمہ زن رہیں گے
یہ کیسی باد بہار ہے جس میں شاخ اردو نہ پھل سکے گی
وہ کیسا روئے نگار ہوگا نہ زلف جس پر مچل سکے گی
ہمیں وہ آزادی چاہیئے جس میں دل کی مینا ابل سکے گی
ہمیں یہ حق ہے ہم اپنی خاک وطن میں اپنا چمن سجائیں
ہماری ہے شاخ گل تو پھر کیوں نہ اس پہ ہم آشیاں بنائیں
ہم اپنے انداز اور اپنی زباں میں اپنے گیت گائیں
کہاں ہو متوالو آؤ بزم وطن میں ہے امتحاں ہمارا
زبان کی زندگی سے وابستہ آج سود و زیاں ہمارا
ہماری اردو رہے گی باقی اگر ہے ہندوستاں ہمارا
چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہم ہوائے بہار بن کر
ہمالیہ سے اتر رہے ہیں ترانۂ آبشار بن کر
رواں ہیں ہندوستاں کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر
ہماری پیاری زبان اردو
ہماری نغموں کی جان اردو
حسین، دل کش جوان اردو
✍️ علی سردار جعفری
_______________________________
(۴) میں اردو ہوں
مجھے غیروں سے کیا خطرہ
کبھی دشمن سے ہوتا ہی نہیں خطرہ کسی کو بھی
سبب تم بھی سمجھتے ہو
کہ دشمن ہر گھڑی ہر پل
مقابل ہی رہا کرتا ہے دشمن کے
مقابل سے تو میدانوں میں اکثر جنگ ہوتی ہے
نتیجہ جنگ کا تم بھی سمجھتے ہو
محاذ جنگ پر خطر ہے نہیں ہوتا
شکست و فتح ہوتی ہے
تو پھر خطرہ کہاں سے ہے
سنو روداد غم
دل تھام کر سننا ذرا لوگو
مجھے خطرہ ہے اپنوں سے
مجھے خطرہ ہے شاعر اور دانشور ادیبوں سے
مجھے نقاد سے خطرہ محقق سے مجھے خطرہ
یہ سارے لوگ وہ ہیں جو تعلق سے مرے اب تک
زمیں سے عرش تک
دعوے تو کرتے ہیں بلندی کے
محافظ خود کو اردو کا کہا کرتے ہیں یہ اکثر
یہ دعویٰ سب بجا لیکن
کوئی پوچھے ذرا ان سے
تمہارے پیارے بچوں میں کوئی ایسا بھی بچہ ہے
کہ جس کو آپ نے اردو سے بہرہ ور کیا اب تک
اگر کوئی یہ پوچھے گا
شکن ماتھے پہ آئے گی نفی میں سر جھکائیں گے
یہی قاتل تو ہیں میرے
یہی تو میرے اپنے ہیں
انہیں سے مجھ کو خطرہ ہے
انہیں پہچان لو لوگو
انہیں پہچان لو لوگو
✍️ شمس رمزی
________________________________
(۵) اردو
اپنی تہذیب ہے اور اپنی زباں ہے اردو
اپنے گھر میں مگر افسوس کہاں ہے اردو
اہل الفت کے لیے حسن رواں ہے اردو
اہل دل کے لیے دل کش ہے جواں ہے اردو
آج بھی غالبؔ و اقبالؔ پڑھے جاتے ہیں
آج بھی کل کی طرح جادو بیاں ہے اردو
آج بھی پریمؔ کے اور کرشنؔ کے افسانے ہیں
آج بھی وقت کی جمہوری زباں ہے اردو
آج بھی ملک کی عظمت کے ہیں نغمے اس میں
آج بھی قوم کی حرمت کا بیاں ہے اردو
آج بھی بزم کی رونق ہے عطاؔ اس کے سبب
محفل شعر کی اس وقت بھی جاں ہے اردو
✍️ عطا عابدی
__________________________________
(۶) ترانہء اُردو
واللہ کیا زباں ہے اردو زباں ہماری
فطرت کی ترجماں ہے اردو زباں ہماری
آبا کی داستاں ہے اردو زباں ہماری
مظلوم کی فغاں ہے اردو زباں ہماری
ہندو بھی بولتے ہیں مسلم بھی بولتے ہیں
دو جسم ایک جاں ہے اردو زباں ہماری
تعمیر کی ہے اس کی خود کو مٹا مٹا کر
اسلاف کا نشاں ہے اردو زباں ہماری
میٹھا اک ایک جملہ پر کیف ہر مقالہ
الحق شکر فشاں ہے اردو زباں ہماری
الفاظ چاند تارے بن کر چمک رہے ہیں
رفعت میں آسماں ہے اردو زباں ہماری
غالبؔ نسیمؔ کیفیؔ چکبستؔ ذوقؔ سرشارؔ
ہر شخص کی زباں ہے اردو زباں ہماری
اک اک کتاب اس کی پھولا پھلا چمن ہے
گلزار بے خزاں ہے اردو زباں ہماری
منشی پریمؔ اس پر ہوتے نہ کیوں تصدق
مانی ہوئی زباں ہے اردو زباں ہماری
ہر آدمی کے دل میں گھر کر رہی ہے شاطرؔ
محبوب مہرباں ہے اردو زباں ہماری
✍️ شاطر حکیمی
Comments
Post a Comment